ہمیں تو ہیں جو ترے ساتھ چلتے رہتے ہیں
ہمیں تو ہیں جو ترے ساتھ چلتے رہتے ہیں
وگرنہ لوگ تو رستے بدلتے رہتے ہیں
کبھی زمانے کا غم ہے کبھی تمہارا غم
غزل سنانے کے پہلو نکلتے رہتے ہیں
نظر تو آتے ہیں اب پھول پھل درختوں پر
یہ اور بات کہ ہم ہاتھ ملتے رہتے ہیں
یہ اپنی مرضی کے مالک ہیں ان سے کچھ نہ کہو
پرانے لوگ ہیں گرتے سنبھلتے رہتے ہیں
عجب اداسی میں اب کے گزر رہے ہیں دن
جو کام آج کے ہیں کل پہ ٹلتے رہتے ہیں
کوئی چراغ سر رہ گزر بھی روشن ہو
منڈیر پر تو دیے سب کی جلتے رہتے ہیں
جھلستی ریت پہ اک بوند ہی اچھال کبھی
یہ بارشوں میں تو دریا ابلتے رہتے ہیں
نہ آئے وہ لب اظہار تک کبھی فاروقؔ
کہ جذبے دل میں تو اکثر مچلتے رہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.