ہنس کے پردہ جو اٹھاتا تو گلستاں ہوتا
ہنس کے پردہ جو اٹھاتا تو گلستاں ہوتا
اور ہی رنگ جہاں تجھ سے نمایاں ہوتا
حوصلہ پوچھ لو ہر ذرے سے وحشت کا مری
نگاہ ہوش جو پڑتی تو بیاباں ہوتا
فصل گل میں جو کہیں دامن گردوں کا ہلال
ہاتھ آتا تو ہمارا ہی گریباں ہوتا
آئنے میں وہ نظر دیکھ رہے ہیں اپنی
دل اگر پیچ میں ہوتا تو یہ میزاں ہوتا
مل گئے خاک میں آنکھوں سے نکل کر ناحق
اشک پر خوں کے لئے آپ کا داماں ہوتا
نشتر عشق و محبت کو نکالا میں نے
دل میں رہتا تو یہ پیوست رگ جاں ہوتا
دل کی محرومیٔ تقدیر کا صدمہ ہے مجھے
یہ جو گلشن نہ ہوا تھا تو بیاباں ہوتا
میں اگر داغ بھی تھا دامن ہستی کے لئے
آپ کے ہاتھ سے مٹ جانے کا ساماں ہوتا
عالم یاس میں صد شکر کہ آئی مجھے موت
اس برے وقت میں تھا کون جو پرساں ہوتا
پوجتا ہے کسی کافر کو وفاؔ کیوں دن رات
اس سے بہتر تو یہی تھا کہ مسلماں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.