ہنس رہا ہوگا شکاری جال پھیلاتے ہوئے
ہنس رہا ہوگا شکاری جال پھیلاتے ہوئے
خوف آتا ہے مجھے گھر لوٹ کر جاتے ہوئے
مانگتے ہیں لوگ پانی کی دعا با چشم نم
خوش ہے بادل ہر طرف تیزاب برساتے ہوئے
خامشی تو مسئلے کا حل نہیں لگتی ہے اور
بات بگڑی ہے ہمیشہ بات منواتے ہوئے
مختلف ہے سوچ اس کی میں نے چاہا تھا مگر
میرا بچہ ہو بڑا کل مجھ کو دہراتے ہوئے
خواہشوں نے کر دیا رسوا سر بازار یوں
اب ضرورت رو رہی ہے ہاتھ پھیلاتے ہوئے
میں اسی آواز کے پیچھے چلا ہوں جھوم کر
آگے آگے چل رہا ہے راستہ گاتے ہوئے
کانپ اٹھتا ہے دل مقصودؔ غم کے نام پر
میں تو اک اک درد سہہ لیتا ہوں مسکاتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.