ہنسا تھا دو گھڑی برسوں مگر آنسو بہایا تھا
ہنسا تھا دو گھڑی برسوں مگر آنسو بہایا تھا
میں جب چھوٹا تھا اک لڑکی سے میں نے دل لگایا تھا
مرے پیروں کے نیچے کی زمیں بنجر تھی کچھ اتنی
صبا نے ایک گل کتنے زمانے میں کھلایا تھا
سلگتی دھوپ میں سوچو سفر کیسے کٹا ہوگا
مری منزل تھی کیا اور تم نے کیا رستہ دکھایا تھا
محبت آگ ہے ایسی جو پانی سے نہیں بجھتی
زمانے نے عبث شعلے کو مٹھی میں دبایا تھا
میں خود محسوس کرتا ہوں کہ اب آزاد ہوں میں بھی
کہ پنجرا کھول کر میں نے پرندوں کو اڑایا تھا
مرے ہاتھوں پہ سوکھے پھول کی کچھ پتیاں رکھ کر
بچھڑتے وقت اس نے مجھ کو سینے سے لگایا تھا
- کتاب : Handwriting File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.