حقیقت میں مجازی عشق کا یوں رنگ بھرتا ہوں
حقیقت میں مجازی عشق کا یوں رنگ بھرتا ہوں
خدا کا نام لے لے کر بتوں کی چاہ کرتا ہوں
حسیں ملتے نہیں پھر بھی ہوس ملنے کی کرتا ہوں
یہ قدر زندگی کرتا ہوں نا قدروں پہ مرتا ہوں
وفور ضعف میں کیا خاک آہ سرد بھرتا ہوں
کلیجا تھام لیتا ہوں تو کوئی بات کرتا ہوں
تلاش دل میں جب میں کوئے جاناں سے گزرتا ہوں
تو اک اک ذرے کو جھک جھک کے لاکھوں سجدے کرتا توں
کرو بھی امتحاں میرا ابھی سر نذر کرتا ہوں
ڈراؤ اور کو تم میں کہاں مرنے سے ڈرتا ہوں
بلاتا ہوں کبھی ان کو طلب ان کو جو کرتا ہوں
تو کہتے ہیں ابھی آتا ہوں بنتا ہوں سنورتا ہوں
تمہیں جانچو تمہیں دیکھو تمہیں سوچو تمہیں سمجھو
مکرتے ہو قسم کھا کھا کے تم یا میں مکرتا ہوں
بھروسا کیا ثبات زندگی کا بحر ہستی میں
حبابوں کی طرح میں ٹوٹتا ہوں جب ابھرتا ہوں
اثر لطف و غضب میں تیرے ایسا ہے کہ ہر عاشق
کبھی کہتا ہے جیتا ہوں کبھی کہتا ہے مرتا ہوں
نظر آتا ہے اک پردے میں جلوہ دونوں عالم کا
مئے وحدت سے جام معرفت کو اپنے بھرتا ہوں
تجھے پاؤں تو سر پر رکھوں آنکھوں پر بٹھاؤں میں
تصور میں یہی بیٹھا خیالی نقش بھرتا ہوں
نہ میں نے کچھ کہا تم سے نہ تم نے کچھ کہا ہم سے
یہی حسرت لئے میں آج دنیا سے گزرتا ہوں
اگر باعث کوئی مرنے کا ہوتا تو نہ غم ہوتا
مگر افسوس اس کا ہے کہ میں بے موت مرتا ہوں
نہیں کچھ پرسش محشر کا غم ہاں ان سے کھٹکا ہے
قیامت سے نہیں ڈرتا تری چالوں سے ڈرتا ہوں
مآل کار پر عشق و محبت میں نظر کیسی
جو کچھ کرنا مجھے ہوتا ہے اس کو کر گزرتا ہوں
سمجھتا ہوں کہ جیتے جی ہوا فردوس میں داخل
ترے کوچے میں چلتے پھرتے جب آ کر ٹھہرتا ہوں
لیا صیاد سے ڈر کر جو قصد اڑنے کا بلبل نے
کہا دست مقدر نے ٹھہر میں پر کترتا ہوں
مآل عشق اے حامدؔ جو کچھ ہونا تھا ہوتا ہے
بتوں کے جبر سہتا ہوں خدا کا شکر کرتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.