حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے
حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے
وہ اپنے دشت سے گزرا نہیں ہے
اندھیرے رقص کرتے ہیں مسلسل
کہ سورج رات کو آتا نہیں ہے
کرے گا خود کشی ہی ایک دن وہ
سکوں جس ذہن کو ملتا نہیں ہے
اٹھائے گھومتی ہے زرد پتے
ہوا سے اور کچھ چلتا نہیں ہے
نہ ڈوبو شمع میں پروانو تم، یہ
دہکتی آگ ہے دریا نہیں ہے
امنگوں کی کئی ندیاں ہیں اس میں
سمندر ہے یہ دل صحرا نہیں ہے
یہ جو آتش فشاں ہے مجھ میں سیماؔ
دہکتا رہتا ہے بجھتا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.