حقیر جانتا ہے افتخار مانگتا ہے
وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے
ابھی تو ہاتھ میں اس کے ہے خاندان کی لاج
گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے
بچھا کے رکھتا ہے وہ سب کی راہ میں کانٹے
صلے میں لوگوں سے پھولوں کے ہار مانگتا ہے
میں اپنے وعدے پہ قرضا چکا نہیں پایا
معافی دل سے ابھی شرمسار مانگتا ہے
حواس جب سے ملے تب سے اضطراب میں ہوں
مرے خدا مرا دل بھی قرار مانگتا ہے
امیر شہر نے چھینا ہے منہ کا لقمہ بھی
پھر اس پہ قہر ابھی اعتبار مانگتا ہے
ابھی یہ اہل سیاست کے بس کا روگ نہیں
ابھی یہ ملک نیا شہسوار مانگتا ہے
بجا کے طائر چشم حسین ہے مشاق
دل و نظر کا مگر یہ شکار مانگتا ہے
میں دیکھتا ہوں کہ زلفیں تری سنوارتا ہوں
ہے خواب اچھا مگر انتظار مانگتا ہے
رشیدؔ ان پہ مرا نغمہ کارگر ہی نہیں
یہ گیت وہ ہے کہ جو دل کے تار مانگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.