ہر عقیدہ ہر یقیں وہم و گماں بنتا گیا
ہر عقیدہ ہر یقیں وہم و گماں بنتا گیا
ہر زمیں پر دوسرا اک آسماں بنتا گیا
قید ہستی سے چھٹا تو بے کراں بنتا گیا
خاک ہو کر پھول شبنم کہکشاں بنتا گیا
کب حوادث پست کر پائے کسی کے حوصلے
برق کی بانہوں میں اپنا آشیاں بنتا گیا
اک ادا اچھی لگی پھر ہر ادا قاتل بنی
گل سے وہ میرے لیے اک گلستاں بنتا گیا
خون سے مزدور کے چمکے نقوش زندگی
خود فنا ہوتا رہا کار جہاں بنتا گیا
کتنے کانٹے رہ گزر کے اب بھی پیاسے رہ گئے
قرب منزل مجھ کو احساس زیاں بنتا گیا
تیرا اے تیغ ستم ہم پر برا احسان ہے
اک ہجوم منتشر سے کارواں بنتا گیا
دے نہ پایا زندگی کو میں کبھی خون جگر
کچھ مگر ایسا تھا مجھ میں جاوداں بنتا گیا
رنگ و بو کے سیل میں تھا ایک انداز جنوں
پھول مرجھاتے رہے اور گلستاں بنتا گیا
منتہائے فکر انسانی بنے دیر و حرم
ہر غبار راہ منزل کا نشاں بنتا گیا
جس کو دیکھا مبتلائے غم تھا مجھ سے بھی سوا
پھر تو اپنے دور کا میں نوحہ خواں بنتا گیا
بجلیاں گرتی رہیں مہمیز بن کر شوق کی
آشیاں جلتا رہا اور آشیاں بنتا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.