ہر بات کا جواب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
ہر بات کا جواب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
چہرہ ترا کتاب سا ہے ہے بھی نہیں بھی ہے
دیکھا ہے اس کو پر نہیں دیکھا بتائیں کیا
اس رخ پر اک نقاب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
کرنا تو چاہتے ہیں بہت کچھ اگر مگر
ذہنوں میں انقلاب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
کہہ تو دیا ہے ہم نے سر بزم حال دل
سن کر وہ لا جواب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
آنا تو چاہتے ہیں مرے پاس وہ مگر
ان کو کچھ اجتناب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
وہ محو گفتگو ہو تو لگتا ہے یوں مجھے
بجتا ہوا رباب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
اس کی گلی میں حال ہر اک نا مراد کا
مجھ خانماں خراب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
وہ ہم کو مل گئے ہیں ملے ہیں مگر کہاں
اک درمیاں حجاب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
حامدؔ نشہ شراب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
ساغر میں آفتاب سا ہے بھی نہیں بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.