ہر چند بھلاتا ہوں بھلایا نہیں جاتا
دلچسپ معلومات
(ستمبر 1929 ء)
ہر چند بھلاتا ہوں بھلایا نہیں جاتا
اک نقش تخیل ہے مٹایا نہیں جاتا
میں نے جو کہا درد بڑھایا نہیں جاتا
کہنے لگے نادان جتایا نہیں جاتا
امید کی کشتی کو سہارا تو لگا دو
مانا کہ تمہیں ساتھ بٹھایا نہیں جاتا
وہ داغ محبت کا نشاں پوچھ رہے ہیں
حالانکہ سمجھتے ہیں دکھایا نہیں جاتا
اب ان کا تقاضہ ہے کہانی نہیں کہتے
جب قصۂ غم ہم سے سنایا نہیں جاتا
ایذا طلبی کی کوئی حد ہو تو جفا ہو
اب وہ بھی ہیں مجبور ستایا نہیں جاتا
تم آؤ گے اور شب کو ذرا سوچ کے کہتے
تم سے تو تصور میں بھی آیا نہیں جاتا
طالبؔ مری باتیں انہیں باور نہیں آتیں
دل چیر کے پہلو کو دکھایا نہیں جاتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.