ہر چہرہ نہ جانے کیوں گھبرایا ہوا سا ہے
ہر چہرہ نہ جانے کیوں گھبرایا ہوا سا ہے
بے چین سا لگتا ہے تڑپایا ہوا سا ہے
کیا دھوکہ نیا کوئی کھایا ہے محبت میں
ہر عضو بدن اس کا تھرایا ہوا سا ہے
آنکھوں میں چمک سی ہے رخسار میں سرخی سی
آغوش میں الفت کی شرمایا ہوا سا ہے
کھلنے کی تمنا تھی زلفوں کے گلستاں میں
دل ٹوٹ گیا گل کا مرجھایا ہوا سا ہے
کھلنے میں قباحت ہے گیسوئے محبت کو
چہرہ شب حسرت کا پتھرایا ہوا سا ہے
الفاظ کی آنکھوں سے برسات ہے اشکوں کی
لہجہ غم جاناں سے بھرایا ہوا سا ہے
نفرت کی شعاعوں کی یلغار ہے ہر جاں پر
جس قلب میں بھی جھانکو کمہلایا ہوا سا ہے
الحاد کا حملہ ہے جاویدؔ ہر اک جانب
عالم کا یہ عالم ہے پگلایا ہوا سا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.