ہر دم بتائے جاتے ہیں ہم بے وفا نہیں
ہر دم بتائے جاتے ہیں ہم بے وفا نہیں
تم کو نہیں یقین تو شک کی دوا نہیں
وہ کہہ رہے ہیں ناز سے ہم بے وفا نہیں
کس کا ہے منہ جو کہہ دے یہ دعویٰ بجا نہیں
زلف رسا بھی یار کی اتنی رسا نہیں
طول شب فراق کی کچھ انتہا نہیں
آنے کو ہے وہ ہوش ربا ہو کے بے نقاب
اے بے خودی جبھی تو پتا ہوش کا نہیں
او رشک حور قتل نہ کر مجھ غریب کو
کوچہ ترا بہشت ہے کچھ کربلا نہیں
بجلی سے بھی سوا ہے چمک میں نگاہ شوخ
سچ ہے وہ تیغ ہی نہیں جس پر جلا نہیں
کل خوش تھے وہ جو پوچھتے تھے میری آرزو
کیسی یہ مجھ سے چوک ہوئی کچھ کہا نہیں
شاکی ہوں اپنے بخت کا سمجھو تو بات بھی
تم کیوں بگڑ رہے ہو تمہارا گلہ نہیں
رو کر عدو کے سوگ میں اندھیر کر دیا
اے شوخ آج آنکھ تری سرمہ سا نہیں
دل دے کے میں ہوا ہدف ناوک ستم
اس میں مری خطا ہے تمہاری خطا نہیں
گھبراؤ مت جو مانگتے ہیں ہم دعائے وصل
مقبول ہو کبھی وہ ہماری دعا نہیں
پریوں میں یہ ادا ہے نہ حوروں میں یہ بناؤ
خود حسن کہہ رہا ہے کہ ثانی ترا نہیں
انصاف کی جو بات ہے کہتا ہوں اے فہیمؔ
شاعر نہیں جو معتقد احسان کا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.