ہر ایک درد سنبھالا ہے زندگانی میں
ہر ایک درد سنبھالا ہے زندگانی میں
جھلک رہا ہے بڑھاپا تبھی جوانی میں
مجھے تو دھوپ سے بھی اس قدر نہ خوف آیا
ملا ہے خوف جو اب تیری سائبانی میں
کبھی پیا گیا اس کو کبھی بہایا گیا
کوئی بھی فرق نہ تھا خون اور پانی میں
اسے نظر کی بھلا کون سی کہوں منزل
دکھائی دینے لگا زرد رنگ دھانی میں
زباں دراز تو ٹھہرے مگر یہی سچ تھا
لٹا ہے شہر یہ تیری ہی پاسبانی میں
ملا نہ قطرہ آب بقا سمندر سے
ملی ہے موت ہمیں شہر جاودانی میں
گنوا کے عمر جسے ہم سنبھال لائے تھے
گنوا دیا اسے اک بات کی روانی میں
رکاوٹیں ہیں یہ رستے کی اے خضرؔ ناداں
جنہیں تو منزلیں سمجھا ہے بے دھیانی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.