ہر ایک شخص کو سارا حساب دینا ہے
سوال اٹھنے لگے تو جواب دینا ہے
یہ نشہ تم کو پلانا پڑے گا آنکھوں سے
کہ جام بھر کے اگرچہ شراب دینا ہے
ستم شعار کو آداب قتل آتے ہیں
ابھی نظر کی کٹاری کو آب دینا ہے
لہولہان کھڑا سوچتا ہوں کانٹوں میں
یہ کیسا شوق ہے کس کو گلاب دینا ہے
بدن پگھلنے تک آغوش میں رہو میری
ذرا سا خود کو نہیں پیچ و تاب دینا ہے
یہی سلوک کیا جا رہا ہے برسوں سے
کہ ان کو شہد ہمیں زہر ناب دینا ہے
بس اس نظام کو تبدیل تم کرو عشرتؔ
نیا زمانہ نیا انقلاب دینا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.