ہر گام پہ حیرت کا نیا باب کھلا ہے
ہر گام پہ حیرت کا نیا باب کھلا ہے
تعبیر پریشان ہے کیا خواب کھلا ہے
اوجھل ہوئے آنکھوں سے تو پوچھا نہ کسی نے
انداز رخ پرسش احباب کھلا ہے
ہم لوگ محبت کے روادار نہ ہوتے
تاخیر سے ہم پر دل بیتاب کھلا ہے
ہونٹوں پہ لگا قفل خموشی نہیں ٹوٹا
سنتے ہیں ید موسم ایجاب کھلا ہے
بستی سے گزرتا ہے تو بستی نہیں رہتی
کن آنکھوں سے یہ چشمۂ سیلاب کھلا ہے
پہچان کے سینے سے لگایا اسے ہم نے
قاتل کی طرح چہرۂ گرداب کھلا ہے
لگتا ہے چھلک جائے گا اب جام تمنا
اس بار جو پیمانۂ اعصاب کھلا ہے
جیسا بھی ہے وقت اب نہ رکیں گے علی یاسرؔ
چلتے ہیں کہ دروازۂ مہتاب کھلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.