ہر جفا چھوٹی لگی سارے ستم چھوٹے لگے
ہر جفا چھوٹی لگی سارے ستم چھوٹے لگے
اپنا غم اتنا بڑا تھا سب کے غم چھوٹے لگے
پیاس کی شدت میں دریا کو بھی شبنم کہہ گئے
دامن دل تنگ تھا دست کرم چھوٹے لگے
بزم کے شیشوں کا سارا حسن غارت ہو گیا
آنکھ ساقی سے ملی اور جام جم چھوٹے لگے
وہ سراپا میرے لفظوں میں سماتا ہی نہیں
اس کو میں کیسے لکھوں لوح و قلم چھوٹے لگے
جس کی حد کوئی نہ ہو آئے بھی کیسے ذہن میں
وہ جو بے پردہ ہوا دیر و حرم چھوٹے لگے
ایک بچے کا ہمکنا چاند چھونے کے لئے
اونچا قد رکھتے ہوئے بھی آج ہم چھوٹے لگے
اپنی مٹی کا کچھ ایسا قرض تھا مجھ پر رئیسؔ
زندگی بھر زندگی کے پیچ و خم چھوٹے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.