ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
کس کا ہے راز بحر میں یا رب کہ یہ ہیں جوش
ابروئے کج ہے موج کوئی چشم ہے حباب
موتی کسی کی بات ہے سیپی کسی کا گوش
ان مغبچوں کے کوچے ہی سے میں کیا سلام
کیا مجھ کو طوف کعبہ سے میں رند درد نوش
حیرت سے ہووے پرتو مہ نور آئینہ
تو چاندنی میں نکلے اگر ہو سفید پوش
کل ہم نے سیر باغ میں دل ہاتھ سے دیا
اک سادہ گل فروش کا آ کر سبد بہ دوش
جاتا رہا نگاہ سے جوں موسم بہار
آج اس بغیر داغ جگر ہیں سیاہ پوش
شب اس دل گرفتہ کو وا کر بزور مے
بیٹھے تھے شیرہ خانے میں ہم کتنے ہرزہ کوش
آئی صدا کہ یاد کرو دور رفتہ کو
عبرت بھی ہے ضرور ٹک اے جمع تیز ہوش
جمشید جس نے وضع کیا جام کیا ہوا
وے نصیحتیں کہاں گئیں کیدھر وے ناؤ نوش
جز لالہ اس کے جام سے پاتے نہیں نشاں
ہے کوکنار اس کی جگہ اب سبو بہ دوش
جھومے ہے بید جائے جوانان میگسار
بالائے خم ہے خشت سر پیر مے فروش
میرؔ اس غزل کو خوب کہا تھا ضمیر نے
پر اے زباں دراز بہت ہو چکی خموش
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0239
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.