ہر کوئی حسب توفیق صحرا کا منظر بناتا رہا
ہر کوئی حسب توفیق صحرا کا منظر بناتا رہا
میں بھی وحشت کے نقشے کو کمرے کے اندر بناتا رہا
جب تلک میرے تلووں پہ اک بے نیازی کی کالک رہی
سنگ ریزوں پہ ایڑی رگڑ کر میں گوہر بناتا رہا
اس کی سندر لویں بالیوں کے لیے جھلملاتی رہیں
میں قلم کی سیاہی سے جس کے لیے زر بناتا رہا
تاج پوشی کو پہلے سنہری پرندے اکٹھے کیے
بعد میں سر بریدہ شجر کے لیے سر بناتا رہا
رات بھر جیسے لٹنے کے امکان کا ڈھول پیٹا گیا
کوئی سیٹی بجا کر ہمارے لیے ڈر بناتا رہا
جس قدم کی دھمک سے ستاروں کے فانوس جلتے رہے
اس قدم کا نشاں چوم کر میں بھی منظر بناتا رہا
رات بھیگی تو بھیگی ہوئی آنکھ سے میرؔ پڑھتے ہوئے
کوئی میری کمی کو سلیقے سے بہتر بناتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.