ہر کوئی سر اٹھا کے چلتا تھا
ہر کوئی سر اٹھا کے چلتا تھا
گھر کی لسی تھی گھر کا آٹا تھا
جانے کس بات پر خفا تھا وہ
آپ جلتا تھا آپ بجھتا تھا
اس کے اندر سے بولتا تھا کوئی
جب کبھی موڈ میں وہ ہوتا تھا
شاخ سے آم جس طرح ٹپکے
اس طرح مجھ پہ جان دیتا تھا
اوڑھ لی شال کیوں خموشی کی
وہ تو اک گفتگو کا دھارا تھا
رات سارا مکان ڈول گیا
کیا ہوائی جہاز گزرا تھا
کھو گیا تھا وہ گہری سوچوں میں
دھوپ کے گھر میں کل اندھیرا تھا
چھوڑ دیتے تھے راستہ دریا
آدمی کا چراغ جلتا تھا
ٹھنڈ تھی ریت کے مکانوں میں
ساربانوں سے پیار ملتا تھا
پھول کھلتے تھے ریگ زاروں میں
ذکر مسجد میں اس کا ہوتا تھا
کوئی سبزے کی لہر تھی شاید
جس نے آرام سے سلایا تھا
اب وہاں اونٹ بلبلاتے ہیں
پہلے مرغابیوں کا ڈیرا تھا
پیڑ اگتے تھے اپنی مرضی سے
کوئی تحصیل تھی نہ تھانہ تھا
شہر والے تو پھینک آئے تھے
اس کو دریا اٹھائے پھرتا تھا
رنگ کروا دیا تھا شیشوں پر
روز سورج جو جھانکا کرتا تھا
ٹیلی ویژن نوازتا ہے اب
پہلے اخبار پر گزارا تھا
جب پلٹتا تھا اس کے گھر سے خلیلؔ
ایک سایہ سا ساتھ ہوتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.