ہر موج بلا سے ہم جب جب کشتئ دل ٹکراتے ہیں
ہر موج بلا سے ہم جب جب کشتئ دل ٹکراتے ہیں
طوفان کی نبضیں ڈوبتی ہیں ساحل کو پسینے آتے ہیں
ہم ان کی محفل میں اپنا افسانۂ غم دہراتے ہیں
دل اور تڑپنے لگتا ہے جب داد وفا کچھ پاتے ہیں
آلام جہاں کے اس دل پر کیا مشق ستم فرماتے ہیں
ناگن کی طرح بل کھاتے ہیں سانپوں کی طرح لہراتے ہیں
تشہیر و نمائش کی گویا پرداز سے دل بہلاتے ہیں
دنیا میں کئی ایسے ہیں جنہیں سرخاب کے پر لگ جاتے ہیں
ہر طرز ستم پر ہنس ہنس کر ہر جور و جفا پر رو رو کر
دیوانے ترے دنیا کو ابھی آداب وفا سمجھاتے ہیں
کہرام سا اٹھتا جاتا ہے اک حشر بپا ہو جاتا ہے
غلطی سے اگر دو اشک مرے دامن پہ کہیں گر جاتے ہیں
ہر برق تڑپ کر کہتی ہے تخریب کا رشتہ مجھ سے ہے
تعمیر نشیمن کی خاطر گلشن میں جہاں بھی جاتے ہیں
اک جزر و مد کا عالم بھی وابستۂ قسمت ہوتا ہے
انسان وہیں کچھ پاتا ہے احساس جہاں تڑپاتے ہیں
دنیا میں ابھی تک باقی ہیں جابر بھی کئی ظالم بھی کئی
حیرت تو یہی ہے اے مشکلؔ انسان سبھی کہلاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.