ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
اور ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے
تم نے احسان کیا تھا سو جتایا تم نے
جو محبت ہو جتانی تو نہیں ہوتی ہے
دوستو سچ کہو کب دل کو قرار آئے گا
ہر گھڑی آس بندھانی تو نہیں ہوتی ہے
دل میں جو آگ لگی ہے وہ لگی رہنے دے
یار ہر آگ بجھانی تو نہیں ہوتی ہے
جب بھی ملتے ہیں چٹک اٹھتے ہیں کلیوں کی طرح
دوستی ہو تو پرانی تو نہیں ہوتی ہے
بارہا اس کی گلی سے یہ گزر کر سوچا
ہر گلی چھوڑ کے جانی تو نہیں ہوتی ہے
موج ہوتی ہے کہیں اور بھنور ہوتے ہیں
صرف دریا میں روانی تو نہیں ہوتی ہے
دور ہو کر بھی وہ نزدیک ہے قربت یعنی
از رہ قرب مکانی تو نہیں ہوتی ہے
شائبہ جس میں حقیقت کا نہیں ہو اجملؔ
وہ کہانی بھی کہانی تو نہیں ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.