ہر نظر کو حشر میں اک حشر برپا چاہیے
ہر نظر کو حشر میں اک حشر برپا چاہیے
اور انہیں محشر میں بھی سر کا دوپٹہ چاہیے
بندہ پرور یہ کھلونا تو نہیں جو پھینک دیں
صاف کہہ دیجے نہیں دل چاہیے یا چاہیے
دیجیے دو چار تحفے میں غضب کی گالیاں
ہم کو اگلے ماہ کا اس ماہ خرچہ چاہیے
دے گئے غیر اپنا دل تحفے میں ان کو اور ہم
پوچھتے ہی رہ گئے کیا چاہیے کیا چاہیے
شرم میں انکار وہ بوسے کو کرتے رہ گئے
پھر جھجھک کر کہہ دیا آخر کو اچھا چاہیے
جان جائے پر نہیں منظور حارثؔ مرگ دل
عاشقوں کا قبر میں بھی دل مچلنا چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.