ہر روز پہلے روز سے بہتر ملا ہے خوف
ہر روز پہلے روز سے بہتر ملا ہے خوف
ایسا نہیں کہ ایک ہی جیسا رہا ہے خوف
جس نے تمہاری نیند کی دنیا اجاڑ دی
مجھ کو بھی ایک ایسی ہی آواز کا ہے خوف
میرے مزاج کا ہے مرا عکس خد و خال
سب سے الگ تھلگ ہوں میں سب سے جدا ہے خوف
یہ کائنات دونوں کی مرضی سے ہے بنی
تیری عطا ہے زندگی میری عطا ہے خوف
اپنا بھی ہاتھ چھونے سے ڈر جائے آدمی
میری سمجھ میں آ چکا کتنا برا ہے خوف
تیری عطا سے بڑھ کے تو ممکن نہیں ہے دوست
اتنا ہی کھا رہا ہوں میں جتنا دیا ہے خوف
میرے لئے ہے حبس کا موسم بلائے جاں
جیسے دیے کے واسطے بپھری ہوا ہے خوف
یہ سوچ میرے واسطے ہے مسئلہ بنی
تجھ میں خدا کا خوف ہے یا پھر خدا ہے خوف
اک روز شہر یار پہ بن جائے گا عذاب
اچھا ہے اہل شہر میں جو پل رہا ہے خوف
شاہدؔ عدم کا ہونا اور نہ ہونا جان لے
یعنی وجود روشنی ہے اور خلا ہے خوف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.