ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا
ہر سفر کے بعد ویسا ہی سفر رکھا گیا
اور پھر مقسوم میرا در بدر رکھا گیا
عرصۂ دشت طلب کو انتہا بخشی گئی
مہلت عمر رواں کو مختصر رکھا گیا
ہم کہاں سینے کی تہ میں یہ سمندر تھامتے
ایک اس خاطر تجھے اے چشم تر رکھا گیا
حاصل جاں پر خس و خاشاک حسرت کھینچ کر
درمیاں اس دل کے خواہش کا شرر رکھا گیا
بوسۂ خورشید سے کھولا سحر کا پیرہن
زانوئے شب پر مہ کامل کا سر رکھا گیا
دن کے رستوں پر بچھائی نارسائی کی تھکن
نیند کی دہلیز پر خوابوں کا پر رکھا گیا
مضطرب رہتی ہے کوہ و دشت میں جیسے ہوا
اس طرح سینے میں سانسوں کا گزر رکھا گیا
آتے جاتے ہر نفس میں موت کا تھا ذائقہ
رائیگاں جینے میں مرنے کا ہنر رکھا گیا
خواہشیں جاگیں جمال یار کے دیدار سے
پانیوں پر ماہ عریاں کا اثر رکھا گیا
عمر بھر سرمدؔ تھی جس کو یاد رکھنے کی سزا
سامنا اس شوخ سے اک لمحہ بھر رکھا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.