ہر شعر سے میرے ترا پیکر نکل آئے
منظر کو ہٹا کر پس منظر نکل آئے
یہ کون نکل آیا یہاں سیر چمن کو
شاخوں سے مہکتے ہوئے زیور نکل آئے
اس بار بلاوے میں کسی ماہ جبیں کے
وہ زور طلب تھا کہ مرے پر نکل آئے
یہ وصل سکندر کے مقدر میں نہیں تھا
ہم کیسے مقدر کے سکندر نکل آئے
شب آئی تو ظلمت کی مذمت میں ستارے
دیوار فلک توڑ کے باہر نکل آئے
اس بات کا آندھی کو گماں بھی نہیں ہوگا
لو ایک تھی فانوس بہتر نکل آئے
الہام کا موسم اتر آتا ہے زمیں پر
بستی میں اگر ایک سخنور نکل آئے
ان سنگ زنوں میں کوئی اپنا بھی تھا شاید
جو ڈھیر سے یہ قیمتی پتھر نکل آئے
پندار ہنر ذوق نظر شدت اخلاص
دنیا کے مقابل مرے لشکر نکل آئے
کچھ سوچ کے امید وفا باندھتے انجمؔ
چشمے کی جگہ کیسے سمندر نکل آئے
- کتاب : Samundar Men Utarta Hon (Pg. 191)
- Author : Anjum Khaliq
- مطبع : Khaleeq Publication (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.