ہر شکن وقت کی پیشانی پہ رکھی ہوئی ہے
ہر شکن وقت کی پیشانی پہ رکھی ہوئی ہے
ہم نے یوں زندگی آسانی پہ رکھی ہوئی ہے
کچھ بھی کہہ لیجئے بنیاد ہے آخر بنیاد
کیا ہوا گر یہ زمیں پانی پہ رکھی ہوئی ہے
گفتگو کیسے کریں اہل خرد سے کہ وہاں
اپنی ہر بات ہی نادانی پہ رکھی ہوئی ہے
تم نے سمجھا ہے تو بس اتنا ہمیں کہ ہم نے
زندگی یوں ہی پریشانی پہ رکھی ہوئی ہے
اپنی پہچان تو بس یہ ہے کہ پہچان اپنی
ہم نے اجداد کی سلطانی پہ رکھی ہوئی ہے
ہائے کہ جنس گراں بھی ہے لہو انساں کا
اور یہی شے ہے کہ ارزانی پہ رکھی ہوئی ہے
ایک مدت سے ہے دلی میں عبیدالرحمن
یہ نظر اب بھی کہ حیرانی پہ رکھی ہوئی ہے
- کتاب : سخن دریا (Pg. 70)
- Author : عبید الرحمن
- مطبع : عرشیہ پبلی کیشن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.