ہر طرف اک بے بسی سی ان دنوں منظر میں ہے
ہر طرف اک بے بسی سی ان دنوں منظر میں ہے
گردش دوراں تھمی ہے اور انساں گھر میں ہے
دیکھنا اس کا شفا ہے اس کا چھونا زندگی
بات یہ کیسی انوکھی میرے چارہ گر میں ہے
موسموں کی رت نئی ہے تم جو ٹھہرے ہو یہاں
یعنی دھڑکن سی ہر اک کنکر میں اور پتھر میں ہے
نامۂ اعمال میں گفتار سے بڑھ کر بھی کچھ
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
جس کو پی کر پھر کسی بھی جام کی خواہش نہ ہو
بندگی کا وہ نشہ اقبال کے ساغر میں ہے
ساحلؔ دریا پہ چھلکا تھا جو تیری یاد میں
میرے اس آنسو کی تابانی ہر اک گوہر میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.