حرف اور صوت کے مابین رہا کرتی ہے
وہ خموشی جو بہت شور بپا کرتی ہے
وہ نظر مجھ کو سوا اور سوا کرتی ہے
لغزشوں پر جو مری طنز کیا کرتی ہے
جس کی تعمیر میں لگ جاتی ہیں اینٹیں ٹیڑھی
گھر کی اکثر وہی دیوار گرا کرتی ہے
جس کی نسبت سے ہے پہچان سلامت میری
ان پہ تقدیر مری ناز کیا کرتی ہے
سوچ میں اپنی اسے قید کیا کرتے ہو
سوچ سے پہلے جو موجود رہا کرتی ہے
جس کی قسمت میں نہیں غم وہی ساعت اکثر
ضبط غم کی مجھے تلقین کیا کرتی ہے
کتنے چہروں سے مسرت کے الٹتی ہے نقاب
وہ اداسی جو مرے گھر میں رہا کرتی ہے
جلتے بجھتے ہوئے لمحوں کے بدن کی چادر
میرے اظہار کو وجدان عطا کرتی ہے
شام غم توڑ دیا کرتی ہے جس کو اکثر
صبح امید وہی خواب بنا کرتی ہے
یہ اشارت یہ عبارت یہ علامت وصفیؔ
لفظ کو عام معانی سے جدا کرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.