حرف بے مطلب کی میں نے کس قدر تفسیر کی
حرف بے مطلب کی میں نے کس قدر تفسیر کی
شکل پہچانی گئی پھر بھی نہ اس تصویر کی
صبح کا دروازہ کھلتے ہی چلو گلشن کی سمت
رنگ اڑ جائے گا پھولوں کا اگر تاخیر کی
قید میرے جسم کے اندر کوئی وحشی نہ ہو
سانس لیتا ہوں تو آتی ہے صدا زنجیر کی
تیرے چہرے پر جو لکھا تھا مری آنکھوں میں ہے
حفظ ہے مجھ کو عبارت اب بھی اس تحریر کی
تجھ کو دیکھا بھی نہیں لیکن تیری خواہش بھی ہے
ریت کی دیوار سطح آب پر تعمیر کی
گھر کی ویرانی در و دیوار کے اندر رہی
میں نے اپنے درد کو مہلت نہ دی تشہیر کی
میں نے لوح عرش پر لکھا ہوا سب پڑھ لیا
لا مری آنکھوں میں مٹی دے مری تقدیر کی
مہر و مہ لگتے ہیں اپنے جسم کے ذرے مجھے
سوچتا ہوں کون سی منزل ہے یہ تسخیر کی
لٹ چکے وہ ہاتھ شاہد جن سے مانگی تھی دعا
ہاں ابھی تک ہے فضاؤں میں مہک تاثیر کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.