حریف آئے تو اس کا بھی گھر نکالا جائے
حریف آئے تو اس کا بھی گھر نکالا جائے
شکارگاہ سے اب کے نہ سر نکالا جائے
شکست فاش کا طوفان سر پہ آ پہنچا
بساط کا ہے تقاضا کہ گھر نکالا جائے
زبان وقت کو دی جائے اک نئی لذت
زمین سے ثمر بے شجر نکالا جائے
تہی ہے دامن ابر عطا تو یوں کر لیں
خذف نچوڑ کے آب گہر نکالا جائے
بہت عجیب ہے اس کی یہ شرط ہم سفری
میان راہ نہ رخت سفر نکالا جائے
قلم کی پیاس بجھانی بہت ضروری ہے
کسی پہ خنجر زہراب اثر نکالا جائے
بہت دنوں سے جلایا نہیں گیا ہے چراغ
یہ قرض ہے تو ہر اک بام پر نکالا جائے
نہ جانے کب سے شرر آشنا ہے دشت جمال
چلو کہ حوصلۂ چشم تر نکالا جائے
چلایا جائے دل سنگ پر جو تیشہ فن
کوئی سپاس گزار ہنر نکالا جائے
یہ دور وہ ہے کہ یاورؔ زبان ہی نہ رہے
جو ایک حرف سر رہ گزر نکالا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.