حریم جبر میں خاموش بھی رہا نہ گیا
حریم جبر میں خاموش بھی رہا نہ گیا
سفیر شب کو نقیب سحر کہا نہ گیا
عجیب کیفیت کرب ہے فضاؤں میں
گلوں نے بارہا چاہا مگر ہنسا نہ گیا
شب ستم کا بیاں جرم ہی سہی کیجے
گماں نہ ہو کہ سر بزم کچھ کہا نہ گیا
خیال خاطر ساقی کی خیر رندوں میں
کہیں بھی تذکرۂ تشنگی سنا نہ گیا
دیار عشق ہے گویا دیار کرب و بلا
یہاں سے اٹھ کے کوئی درد آشنا نہ گیا
عجب طرح کے مسافر تھے ہم کہ بیٹھ رہے
بھٹک کے راہ سے دو گام بھی چلا نہ گیا
ہزار مرحلۂ جبر سے ہوئے دو چار
دل شمیمؔ سے جینے کا حوصلہ نہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.