حشر میں اور ہی آثار نظر آتے ہیں
حشر میں اور ہی آثار نظر آتے ہیں
میرے حامی شۂ ابرار نظر آتے ہیں
دل بیتاب کو یہ کہہ کے سنبھالا شب غم
ٹھہر اب صبح کے آثار نظر آتے ہیں
قلب مومن کی عجب شان ہے اللہ اللہ
سر جھکاتا ہوں تو انوار نظر آتے ہیں
شب اسریٰ نہ رہا ایک بھی پردہ حائل
صاف حق کے انہیں دیدار نظر آتے ہیں
دست قدرت نے بنائی ہے وہ صورت تیری
جس کے کونین خریدار نظر آتے ہیں
چھپ نہیں سکتے ہیں اس پردہ نشیں کے عاشق
ہم نے دیکھے ہیں سر دار نظر آتے ہیں
شافع حشر شفاعت پہ کمر بستہ ہے
آج ہر سمت گنہ گار نظر آتے ہیں
فیض ساقی سے ہے مے خانۂ ہستی آباد
آج مے خوار ہی مے خوار نظر آتے ہیں
اپنے باطن کو نہ دیکھا کبھی زاہد تو نے
ہم تو مے خوار ہیں مے خوار نظر آتے ہیں
ابر آتے ہیں جو فرقت میں تری اے ساقی
صورت دیدۂ خونبار نظر آتے ہیں
غنچۂ دل جو ترے ہجر میں افسردہ ہے
باغ میں پھول مجھے خار نظر آتے ہیں
مرض عشق کی حالت کوئی ہم سے پوچھے
وہ تو اچھے ہیں جو بیمار نظر آتے ہیں
ہاتھ خالی ہے مگر دل تو غنی ہے اپنا
چشم مخلوق میں زردار نظر آتے ہیں
چھوٹ جائیں گے مصیبت سے اب انشا اللہ
ہجر میں موت کے آثار نظر آتے ہیں
ڈگمگاتے ہیں قدم راہ وفا میں میرے
مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں
اس قدر محو رہے حرص و ہوا میں راسخؔ
اب تو صورت سے گنہ گار نظر آتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.