حسین ہے تو رہے صبح تیری پر نہیں کر
حسین ہے تو رہے صبح تیری پر نہیں کر
میں شب پرست ہوں مجھ پر ابھی سحر نہیں کر
جو راہ میں نے چنی ہے کہیں نہیں جاتی
امید ناز مجھے اپنا ہم سفر نہیں کر
تماش بیں مرے ہونے کے منحرف ہو جائیں
اب اس قدر بھی کہانی کو مختصر نہیں کر
تو چاندنی کے ترنم سے کھلنے والا بدن
میں بے چراغ ٹھکانا ہوں مجھ کو گھر نہیں کر
ابھی گمان کئی مرحلوں سے گزرے گا
اے بد دعائے تذبذب دلاں اثر نہیں کر
یہ بڑھتے سائے شکاری ہیں میرے سورج کے
خدایا شام اب اتنی بھی معتبر نہیں کر
دریچے ہیں کوئی آنکھیں خدائی دنیا کی
انہیں سے ہو کے گزر اور کوئی در نہیں کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.