حسیں جبیں پہ مرے ہونٹ تھرتھرانے لگے
حسیں جبیں پہ مرے ہونٹ تھرتھرانے لگے
پھر اس کے بعد مرے ہوش کب ٹھکانے لگے
میں ریت پر بھی تراشوں جو خال و خد اس کے
ستارے پردہ کریں چاند منہ چھپانے لگے
یہ آبشار یہ بادل یہ جھیل کا پانی
اسے سنورنے کو سب آئنہ دکھانے لگے
کبھی جو چھیڑا کسی نے بھی تذکرہ ان کا
شجر خمیدہ ہوئے پھول مسکرانے لگے
انہوں نے پوچھا نہ اس کی کوئی ضرورت تھی
ہم اپنا حال دل مضطرب سنانے لگے
مرے لبوں نے فقط نام ہی لیا اس کا
پرند اس کی گلی شہر تک بتانے لگے
میں اس کے پاس جو بیٹھوں الجھ پڑے خوشبو
چراغ گھورے مجھے اور تلملانے لگے
وہ دور آخری کرسی پہ بیٹھے بیٹھے مجھے
دلاسا دینے لگے حوصلہ بڑھانے لگے
یہ جان کر کہ ترا بت پڑا ہے مندر میں
خدا پرست وہاں گھنٹیاں بجانے لگے
میں اس کے شہر سے آیا ہوں جان کر اتنا
تمام لوگ مرے راستے سجانے لگے
جہاں بسیرا کیا پنچھیوں نے تیرے لیے
ہمیں وہ گھونسلے پیروں کے آستانے لگے
یہ حسن ایک ہی ساعت میں بن گیا تھا میاں
خدا کو عشق بنانے میں کچھ زمانے لگے
خمار دیکھا جو آنکھوں میں نیند کا دانشؔ
زمیں پہ آ کے فرشتے اسے سلانے لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.