حسیں لباس میں بے حد بھلا لگے ہے مجھے
حسیں لباس میں بے حد بھلا لگے ہے مجھے
وہ آدمی ہے مگر دیوتا لگے ہے مجھے
کتاب زیست کے اوراق منتشر کر کے
وہ اپنی ذات سے کتنا کٹا لگے ہے مجھے
یہ شورشوں کا زمانہ یہ وار کا موسم
زمیں سے تا بہ فلک چیختا لگے ہے مجھے
نہ جانے کب سے ہوں راہ سفر میں سرگرداں
وجود اپنا کہیں بھاگتا لگے ہے مجھے
گلی گلی میں کچھ ایسا سکوت چھایا ہے
کہ اپنی چیخ بھی اب بے صدا لگے ہے مجھے
کہاں سے آئے لہو غم زدہ پتنگوں میں
چراغ شام بھی بجھتا ہوا لگے ہے مجھے
گھروں میں بند رہو کھڑکیاں بھی مت کھولو
کہ اب یہ شہر بھی آسیب سا لگے ہے مجھے
میں ریزہ ریزہ ہوا جا رہا ہوں اے پرویزؔ
مرا وجود بھی بکھرا ہوا لگے ہے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.