حسرت دل یوں نکالی جائے گی
حسرت دل یوں نکالی جائے گی
آرزو میں جان ڈالی جائے گی
آبرو جب برملا لی جائے گی
اک نظر بھر کے چرا لی جائے گی
آخری خواہش بھی ٹالی جائے گی
تیغ کیا ان سے سنبھالی جائے گی
ناز سے دنیا کما لی جائے گی
ہاتھ پر سرسوں جما لی جائے گی
رہن گلشن ہو چلا ذوق نہاں
اب نظر سانچے میں ڈھالی جائے گی
کیا خبر تھی عشق کی تعمیر میں
درد کی بنیاد ڈالی جائے گی
یہ تو ظاہر تھا کہ بزم حسن میں
عشق کی پگڑی اچھالی جائے گی
ان کو اپنے بالمقابل دیکھ کر
بے خودی کیسے سنبھالی جائے گی
دشمنی کے ذکر پر مائل ہیں وہ
دوستی کی بات ٹالی جائے گی
بزم الفت کی نظر میں خار ہوں
بد نگاہی مجھ پہ ڈھالی جائے گی
شادؔ رہتے کٹ گئی ہے زندگی
نبھ سکے گی جو نبھا لی جائے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.