حسرت سایہ میں جنگل کو تکے جاتا ہوں
حسرت سایہ میں جنگل کو تکے جاتا ہوں
دھوپ ہے اور میں آنچل کو تکے جاتا ہوں
ایسی شکنیں میرے ایقان میں کب آئیں گی
تیری پیشانی کے گنجل کو تکے جاتا ہوں
دور جاتی ہوئی گاڑی کا دھواں ہے اور میں
سرخ ہوتے ہوئے سگنل کو تکے جاتا ہوں
اپنے پہلو میں چبھی جاتی ہیں پتھر کی سلیں
اور ترے پہلو کے مخمل کو تکے جاتا ہوں
جب کسی ریت کی صورت ہے مری مٹھی میں
کیوں گزرتے ہوئے ہر پل کو تکے جاتا ہوں
یہ زمانہ بھی یوں ہی دیکھتا ہوگا مجھ کو
جس طرح میں کسی پاگل کو تکے جاتا ہوں
رونق شہر کا اک میں ہی تماشائی ہوں
اپنے اطراف کے دلدل کو تکے جاتا ہوں
بھری برسات کی بوچھاڑ ہے اور میں پیاسا
اس چھلکتی ہوئی چھاگل کو تکے جاتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.