حسرت شوق شہادت ہے نکل جانے دو
حسرت شوق شہادت ہے نکل جانے دو
آج خنجر کو گلے پر مرے چل جانے دو
مست ہو دیدۂ مے گوں سے زمانہ سارا
تم جو پیمانے سے آنکھ اپنی بدل جانے دو
دل بھی دے دیں گے طلب گار ہیں گر دل کے حسین
پہلے چٹکی سے کلیجہ انہیں مل جانے دو
روکتا کون ہے جاتی ہے تو جائے شب ہجر
کالا منہ کرنے دو کم بخت کو ٹل جانے دو
یاد مژگاں ہی سے حاصل ہے مجھے لطف خلش
تیر چلتے ہیں کلیجے پہ تو چل جانے دو
ایسا بھی کیا ہے ابھی آئے ہو جانا ٹھیرو
اور دو چار گھڑی دل کو بہل جانے دو
طائر روح پہ آفت قفس جسم میں ہے
چار دیوار عناصر سے نکل جانے دو
آفت آئے گی محبت کے گنہ گاروں پر
کھول کر دیتے ہو کیوں زلف میں بل جانے دو
میں یہ کہتا ہوں کہ اغیار کا جامہ نہ پہن
دل کو ضد ہے کہ مجھے بھیس بدل جانے دو
پاؤں رکھتا ہے رہ شوق میں اے حضرت دل
سر کے بل جاتا ہوں میں آنکھوں کے بل جانے دو
چھوڑ دو کوچۂ جاناں کا تصور رونقؔ
دل جو کم بخت مچلتا ہے مچل جانے دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.