ہستی کو جمال دے رہا ہوں
ہستی کو جمال دے رہا ہوں
میں تیری مثال دے رہا ہوں
معنی پہ چڑھا کے غازۂ نو
لفظوں کو خیال دے رہا ہوں
ماضی پہ نگہ ہے اپنی گہری
فردا کو میں حال دے رہا ہوں
مشکل بھی ہے اور سہل بھی ہے
ایسا میں سوال دے رہا ہوں
شیشہ گری ہے عجیب میری
آئینے کو بال دے رہا ہوں
ماحول میں ہے کچھ ایسی خنکی
جذبات کو شال دے رہا ہوں
کیوں عارض وقت اب نہ نکھرے
فن کا حسیں خال دے رہا ہوں
امروز کے جتنے ہیں مسائل
فردا ہی پہ ٹال دے رہا ہوں
پھنس کر یوں شکنجے میں گنہ کے
مکڑی کو میں جال دے رہا ہوں
گمراہ زمانہ ہے تو کیا غم؟
شمع مہ و سال دے رہا ہوں
دل ٹوٹ گیا تو کیا کرامتؔ
پیغام وصال دے رہا ہوں
- کتاب : Shakhe Sanobar (Pg. 188)
- Author : Karamat Ali Karamat
- مطبع : Kamran Publications,Odisha (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.