ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور
ہر جادۂ منزل میں ہے سجدے کی ادا اور
معبد کی فضا اور ہے مقتل کی فضا اور
پھر ٹھہر گیا قافلۂ درد سنا ہے
شاید کوئی رستہ میں مری طرح گرا اور
اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور
منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا
تقدیر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور
اللہ گلہ کر کے میں پچھتایا ہوں کیا کیا
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور
کتنے بھی ہوں کشتے مرض حرص و ہوا کے
بیمار کی موت اور ہے مرگ شہدا اور
کیا زیر لب اے دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور
یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور
دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور
یہ دور جو اے نجمؔ ہے اردو کا مخالف
اس دور میں اردو کی ہوئی نشو و نما اور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.