ہوا بھی ہے سانس بھی رواں ہے عجب سی پھر بھی گھٹن ہے کوئی
ہوا بھی ہے سانس بھی رواں ہے عجب سی پھر بھی گھٹن ہے کوئی
رہائی پا کے بھی یوں لگے ہے مسلط جان و تن ہے کوئی
نکال لیتا ہے جو شمیم اور ذائقہ ہر گل و ثمر سے
کمال کا صاحب مہارت نگاہ دار چمن ہے کوئی
ہوا تھا اک سانحہ کہ ہم ہو گئے تھے محروم راہبر سے
ہے سانحہ یہ دگر کہ آگے جو لے چلا راہزن ہے کوئی
مسافتوں سے نہ ہو سکے طے عجیب باہم یہ فاصلہ ہے
اسی تناسب سے دور تر ہے قریب اگر نسبتاً ہے کوئی
بگڑ کے تصویر جانیے ہو گئی ہے تجرید کا نمونہ
اجڑ گیا ہے کچھ ایسا چہرے کا شہر کہیے کہ بن ہے کوئی
پتا لگانا ہوا ہے دشوار کون ہے خلط ملط کس کا
ہے ذات اس کی وجود میرا ہے جاں کسی کی بدن ہے کوئی
یہ کس جگہ انہماک سے گفتگو کا یوں سلسلہ ہے جاری
جہاں پہ ہم ذہن و ہم زباں ہے نہ ہمدم و ہم سخن ہے کوئی
کہیں بھی دنیا میں ہوں مجھے اس خیال سے تقویت رہی ہے
مدام آباد شاد رکھے خدا کہ میرا وطن ہے کوئی
سنے ہیں شوکتؔ خیال کیا کیا یہ لوگ دیکھے ہیں کیسے کیسے
کتاب ہے بات میں کسی کی نہ ذات میں انجمن ہے کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.