ہوا چلی ہے یہ کیسی خلاف چاروں طرف
ہوا چلی ہے یہ کیسی خلاف چاروں طرف
ہے ایک سلسلۂ انحراف چاروں طرف
حقیقتوں کی بھی پہچان اب ہوئی دشوار
خذف خذف ہیں صدف کے خلاف چاروں طرف
اسی طرح ہے ابھی باطنوں میں سناٹا
ہے اپنی ذات کا گو انکشاف چاروں طرف
تو سنگ میل کی صورت ہے نصب ایک جگہ
میں گرد راہ ہوں میرا طواف چاروں طرف
ہے چہرہ چہرہ وہی زخم رائیگاں ہنری
بکھر گئے ہیں قلم کے شگاف چاروں طرف
ہیں روشنائی و قرطاس و کلک بھی کیا کچھ
ملے ورق بہ ورق اختلاف چاروں طرف
تو خود سے کٹ کے ذرا دوسروں میں جینا سیکھ
کریں گے لوگ ترا اعتراف چاروں طرف
رہوں حصار بدن میں کہ شہر جاں کو چلوں
وہی طواف وہی اعتکاف چاروں طرف
فضاؔ مروجہ بحروں میں جدتوں کا یہ شوق
اضافے سمٹے تو پھیلے زحاف چاروں طرف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.