ہوا چلی تو پسینہ رگوں میں بیٹھ گیا
ہوا چلی تو پسینہ رگوں میں بیٹھ گیا
نمی کا زہر شجر کی جڑوں میں بیٹھ گیا
اداس کیوں نہ ہوں اب تیرے قرب کی صبحیں
شب فراق کا ڈر سا دلوں میں بیٹھ گیا
ابھی فضاؤں میں برق صدا ہی کوندی تھی
زمانہ خوف کے مارے گھروں میں بیٹھ گیا
نہ کام آ سکی اعضا کی چار دیواری
مکاں بدن کا زمیں کی تہوں میں بیٹھ گیا
امید و بیم کے سائے ہیں جس طرف دیکھوں
میں چلتے چلتے یہ کن جنگلوں میں بیٹھ گیا
ہوا کا سامنا پتے غریب کیا کرتے
کھڑا درخت بھی تیز آندھیوں میں بیٹھ گیا
برس پڑیں مرے سر پر سیاہیاں صدیقؔ
سحر کا روپ نگر ظلمتوں میں بیٹھ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.