ہوائے گرمیٔ سود و زیاں سے روٹھ گئے
ہوائے گرمیٔ سود و زیاں سے روٹھ گئے
ذرا سی بات پہ سارے جہاں روٹھ گئے
وہ عشق گل تھا کہ گلچیں کے ہم عدو ٹھہرے
یہ رشک گل ہے کہ ہم باغباں سے روٹھ گئے
جو بے دماغ تری رہ گزر میں آ بیٹھے
مکاں تو چیز ہے کیا لا مکاں سے روٹھ گئے
جو تیز گام تھا اس کو سکھائی رسم سلوک
جو سست گام تھا اس کارواں سے روٹھ گئے
حرم سے گزرے تو شیخ حرم سے لڑ بیٹھے
مغاں میں پہنچے تو پیر مغاں سے روٹھ گئے
وہ سادہ دل ہیں کہ غیروں کو راز داں جانا
وہ بد گمان ہیں ہر رازداں سے روٹھ گئے
یہ دیکھ کر کہ غم دو جہاں ہے رسم جہاں
جو اہل غم تھے غم دو جہاں سے روٹھ گئے
کہاں ہیں اہل بہار اور کہاں ہے دعوت گل
کہ بے نصیب گل و گلستاں سے روٹھ گئے
کہاں ہے پیر مغاں اور کہاں ہے مژدۂ ہوش
کہ تشنہ لب رہ و رسم مغاں سے روٹھ گئے
یہ احتیاط نے ساقی کی دل کا حال کیا
کہ رند گرمیٔ بزم جہاں سے روٹھ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.