ہوا کے دوش پہ دھندلی سی اک لکیر ہوں میں
ہوا کے دوش پہ دھندلی سی اک لکیر ہوں میں
حصار وقت سے اڑتا ہوا اسیر ہوں میں
مرے کیے ترے لکھے کے سلسلے یعنی
جنم جنم کی مسافت کا راہگیر ہوں میں
سزا جزا کے ہیولے مرے خمیر میں ہیں
کیے کرائے کا احساس ناگزیر ہوں میں
تعلقات کی اقلیم کیا ملے گی مجھے
توقعات کا بھٹکا ہوا سفیر ہوں میں
ٹھٹھر کے دور ٹھٹھک جائے ہر کرن کا تپاک
خنک ہواؤں کے نرغے میں زمہریر ہوں میں
میں زمزمہ ہوں صداؤں کا کورے کاغذ پر
قلم کے زخمۂ معصوم کی سریر ہوں میں
صدا کو ڈھالے ہے دنیا نظر کے سانچے میں
کہیں نفیر یقیناً کہیں صفیر ہوں میں
مرے وجود سے پھوٹی اکائیاں ہیں گواہ
رمق میں عشر کی سمٹا ہوا عشیر ہوں میں
نظر تراش لے درپن تو ننگ نام و نمود
نظر پناہ میں لے لے تو دل پذیر ہوں میں
حریف زعم تصادم تمام سنگ وجود
شہید لمس حنائی رگ حریر ہوں میں
نظر تو الجھے گی راہیؔ مری مناظر سے
وہی خمیر ہوں آخر وہی ضمیر ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.