ہوا میں جو یہ ایک نمناکی ہے
صدا تیز رفتار دریا کی ہے
قدم روک مت پیچھے مڑ کے نہ دیکھ
یہ آواز کم بخت دنیا کی ہے
مکاں تو مرا لا مکاں ہو گیا
شکایت مگر تنگئ جا کی ہے
بھڑکتا ہے شعلہ سا رنگ سکوت
قلندر کے لہجے میں بیباکی ہے
پڑا رہ بدن کے دریچے نہ کھول
مری انگلیوں میں ہوس ناکی ہے
شجر سے لپٹ کر نہ روئے گی یہ
ہوا جو چلی ہے وہ صحرا کی ہے
مرے شیشۂ لا زماں پر ابھی
بہت گرد امروز و فردا کی ہے
چمک آنکھ میں حیرتوں کی نہیں
بس اک دھوپ تاب تماشا کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.