ہوا میں کچھ تو گھلا تھا کہ ہونٹ نیلے ہوئے
ہوا میں کچھ تو گھلا تھا کہ ہونٹ نیلے ہوئے
گلے لگاتے ہی تازہ گلاب پیلے ہوئے
نہ دشت جان پہ برسی رفاقتوں کی پھوار
نہ آنکھ میں چمک آئی نہ لب ہی گیلے ہوئے
اندھیرے اوڑھنا چاہے تو بدلیاں چمکیں
چراغ اجالنا چاہے تو لاکھ حیلے ہوئے
تمام رات اسی کہر کے جزیرے پر
الجھ الجھ کے شعاعوں کے ہاتھ نیلے ہوئے
محبتوں کو بڑھاؤ کہ رنجشیں بھی مٹیں
سکوں نہ ہوگا اگر مختلف قبیلے ہوئے
کچھ اتنی تیز ہے یہ لفظ کی شراب اسے
کشید کرتے ہوئے ہاتھ بھی نشیلے ہوئے
تہوں میں بیٹھنا چاہا اگر کبھی سجادؔ
گلے کا ہار کئی بے طلب وسیلے ہوئے
- کتاب : Dariche (Pg. 52)
- Author : Bashir Saifi
- مطبع : Shakhsar Publishers (1975)
- اشاعت : 1975
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.