ہواؤں کا جو شہ پر بولتا ہے
ہمارے گھر کا چھپر بولتا ہے
وہی منظر بہ منظر بولتا ہے
غزل چہرہ بدن بھر بولتا ہے
فلک صحرا سمندر بولتا ہے
طلسم خواب شب بھر بولتا ہے
کئی فاقوں کا مظہر بولتا ہے
شکم پرور جو پتھر بولتا ہے
خموشی اوڑھ لیتا ہے فلک بھر
کبھی وہ شخص اکثر بولتا ہے
کبھی کرتے ہیں سجدے چاند تارے
کبھی مٹھی میں کنکر بولتا ہے
پگھلتی جا رہی ہے برف ساری
تباہی کا سمندر بولتا ہے
میں اپنے آپ سے کرتا ہوں باتیں
کہ خود مجھ سے مرا گھر بولتا ہے
پہن لیتا ہے وہ جو کچھ بھی سیفیؔ
بہت اس کے بدن پر بولتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.