حیا کے مارے وہ وصل کے پل نظر کا پردا گرا رہی ہے
حیا کے مارے وہ وصل کے پل نظر کا پردا گرا رہی ہے
اگرچہ گالوں کی سرخ رنگت ہر ایک خواہش جتا رہی ہے
ذرا حدوں سے نکل کے آگے مروڑ دی جب کلائی اس کی
لگا کہ جیسے وہ کسمسا کر قریب اپنے بلا رہی ہے
یہ حسرتوں کے بھڑکتے شعلے لگے کہ دنیا مچل اٹھی ہو
اکھڑتی سانسوں کی دھونکنی اب لویں دیوں کی بجھا رہی ہے
یہ موگرے کے مہکتے گجرے مہک رہا ہے کبھی پسینہ
لگی مہکنے حیات ساری مہک مہک میں سما رہی ہے
کبھی وہ مہماں رہی ہے میری کبھی وہ کرتی ہے میزبانی
کبھی وہ ہوتی ہے اوڑھنی سی کبھی وہ خود کو بچھا رہی ہے
گھٹائیں برسی کنارے ٹوٹے چنی ہیں راہیں ندی نے اپنی
وہ اک سمندر سے مل کے اپنی تمام ہستی مٹا رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.