حیات بخش دل مہرباں نہیں ملتا
حیات بخش دل مہرباں نہیں ملتا
مجھے زمیں پہ کوئی آسماں نہیں ملتا
ہزار حشر اٹھاتے ہیں خاک کے پتلے
پھر ایک روز کسی کا نشاں نہیں ملتا
نیا ہے شہر کہاں جا کے سر چھپاؤں گا
وہ اجنبی ہوں جسے ہم زباں نہیں ملتا
یہ وہ ہے گل جو کھٹکتا ہے خار کی صورت
وفا پرست کو دشمن کہاں نہیں ملتا
مزا تو جب تھا تڑپتی ہی چرخ پر رہتی
کسی کا گھر تجھے برق تپاں نہیں ملتا
بس ایک دائرہ ہے جس میں گھومتا ہوں میں
مرے سفینے کو آب رواں نہیں ملتا
ہوا کی تیزی سے ہوتا ہے لرزہ بر اندام
وہ ناخدا جسے عزم جواں نہیں ملتا
کمی بہار کی ہے اور نہ غنچہ و گل کی
سکون پھر بھی سر گلستاں نہیں ملتا
میں خار و خس کو ہٹاتا ہوں راستوں سے فلکؔ
لٹا ہوا جو کوئی کارواں نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.